(دی کوئٹہ ارتھ کوئیک آف 31 مئی 1935) کوئٹہ زلزلہ 1935
کوئٹہ زلزلہ 1935: جب 45 سیکنڈ میں پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا
7.7 شدت کا زلزلہ صرف 45 سیکنڈ میں پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا
یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اُردو پر 31 مئی 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے 87 سال قبل آج ہی کے روز آنے والے زلزلے کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
اگرچہ سال کا یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کے بیشتر باسی بند کمروں کے بجائے کھلے آسمان تلے سونے کو ترجیح دیتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ رات عام راتوں کے مقابلے میں قدرے سرد تھی اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر آبادی گھروں کے اندر چار دیواریوں میں سو رہی تھی۔
آج سے ٹھیک 88 برس قبل یعنی 30 اور 31 مئی 1935 کی درمیانی شب گھروں کے اندر سونے والے کوئٹہ کے ان باسیوں کو سنبھلنے کی مہلت نہ بھی مل سکی، ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنائی دی اور اس سے قبل کہ نیند سے ہربڑا کر اٹھنے والوں کو اپنے نیچے موجود زمین کی تھرتھرا اٹھنے کی کچھ وجہ سمجھ میں آتی، سب ملیا میٹ ہو چکا تھا۔
زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔
زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شہر کی بچی کھچی انتظامیہ اور فوج نے عمارتوں اور گھروں سے لاشیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا مگر چار جون تک ملبے تلے دبی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ میڈیکل افسران کے مشورے کے بعد تباہ شدہ شہر کو آئندہ 40 دن کے لیے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ گلی سڑی لاشوں کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ کم سے کم کیا جا سکے۔
اوپر بیان کی گئی تفصیلات سنہ 1935 میں کوئٹہ کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی اُس رپورٹ (دی کوئٹہ ارتھ کوئیک آف 31 مئی 1935) سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اعلیٰ حکام کو ارسال کی تھی۔
اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ملبے کے ڈھیر تلے تلاش اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام اتنا مشکل تھا کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ نے اس حوالے سے ایک مکمل باب لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یکم جون 1935 کی صبح سے لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور تین جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں جنھیں لاریوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میتوں کی شہر کے جنوب میں واقع قبرستانوں میں تدفین ہوئی جبکہ ہندؤ شہریوں کی میتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میتوں کو جلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے لکڑیوں کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔
’چار جون کو لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اس حد تک ناقابل برداشت ہو چکا تھا کہ کوئٹہ شہر کو مکمل سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملبے تک موجود مزید میتوں کی تلاش کے کام کو 20 جولائی تک روکنا پڑا۔‘
زلزلے کے دو روز بعد لاشوں کے تعفن اٹھنے کے باعث امدادی کارکنوں کو ناک اور منھ پر ماسک پہنے پڑے
’چار جون سے پہلے تک سڑک کنارے یا ملبے کے اوپر موجود بیشتر لاشوں کو اٹھا کر ٹھکانے لگایا جا چکا تھا۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا مگر اندازہ ہے کہ اس زلزلے میں 25 سے 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
سنہ 2005 میں بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین ساٹھ ہزار کے لگ بھگ کیا ہے۔
ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کی تحقیق کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور زیر زمین گہرائی فقط 30 کلومیٹر تھی۔
اگرچہ اس زلزلے کے آنے کے صحیح وقت کے حوالے سے متضاد آرا ہیں مگر محکمہ موسمیات کوئٹہ کے دفتر میں موجود ایک گھڑیال اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
یہ گھڑیال گذشتہ 86 برس سے خاموش ہے کیونکہ یہ اس المناک واقعے کا اہم گواہ ہے۔ 31 مئی 1935 کو صبح تین بج کر چار منٹ پر یہ گھڑیال اس وقت خاموش ہو گیا تھا جب زلزلے کے باعث اسے نقصان پہنچا۔ بعدازاں اسے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ کر لیا گیا کیونکہ اس پر وہ وقت محفوظ ہے جب کوئٹہ شہر پر قیامت ٹوٹی۔
یاد رہے کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں زلزلے کا وقت تین بج کر تین منٹ بتایا گیا ہے۔